بریلوی دیوبندی اختلاف کی تاریخ
دیوبند اور بریلی
اترپردیش کے دو شہر ہیں ۔ بریلی ایک بڑا شہر ہے اور دیوبند ایک قصبہ ہے ۔ ان جگہوں
کے نام سے مشہور دو مکتبہ فکر ہیں ، دیوبندی اور بریلوی ، حالانکہ دونوں اس نا م
کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہیں اور دونوں اپنے کو اہل سنت والجماعت جسے مختصر میں
سنی کہا جاتا ہے کہلایا جانا پسند کرتے ہیں۔اور اپنے حلقے میں اسی نام سے جانے
جاتے ہیں لیکن عرفِ عام میں عوام انہی دیوبندی اور بریلوی کے نام ہی سے جانتی ہے ۔
دونوں گروہ فقہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کے ماننے والے ہیں ،
دونوں عقیدہ میں ماتریدی ہیں ،
ہندوستان میں مجدد الف ثانی ؒ اورشاہ عبدالعزیزؒ تک بھی دونوں میں کوئی اختلاف
نہیں،فریقین ان اکابر کے عقیدت مند ومتعارف دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں صوفیا کرام کے چاروں سلسلے (نقشبندی ، چشتی ، قادری، اور سہروردی)
میں بیعت کرتے اور کراتے بھی ہیں۔ اس طرح دونوں میں کافی یکسانیت بھی ہے
ہندوستان میں مجدد الف ثانی ؒ اورشاہ عبدالعزیزؒ تک بھی دونوں میں کوئی اختلاف
نہیں،فریقین ان اکابر کے عقیدت مند ومتعارف دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں صوفیا کرام کے چاروں سلسلے (نقشبندی ، چشتی ، قادری، اور سہروردی)
میں بیعت کرتے اور کراتے بھی ہیں۔ اس طرح دونوں میں کافی یکسانیت بھی ہے
۔ لیکن پھر بھی دونوں میں
اختلاف پایا جاتا ہے ، حالانکہ اس اختلاف کی تاریخ پرانی ہے ، اور یہ اختلاف کم
وبیش پورے بر صغیر میں پایا جاتا ہے لیکن کچھ مقامات پر یہ بہت ہی سنگین صورت
اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس کے علاوہ انٹرنیٹ جو اس دور میں ذرائع ابلاغ اور مواصلات
کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، اس پر یہ لڑائی بہت شدت
اختیار کیے ہوئے ہے ، اور نہ صرف اسلامی بلکہ عام انسانی شرافت اور قدروں کو بھی
پامال کرتے ہوئے یہ لڑائی لڑی جاری ہے ، ایک مسلمان تو کیا ایک سنجیدہ غیرمسلم بھی
اس کو پسند نہیں کرے گا ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
یہ اختلاف جس نوعیت کا آج نظر آرہا ہے ، یہ اچانک
وجود میں
نہیں آیااور اس میں بہت سے لوگوں نے اپنا رول ادا کیا ہے ۔ اور یہ اختلاف بتدریج ترقی پذیر ہوا ہے ، یہ اختلاف جو ایک پودے کی شکل میں وجود میں آیا تھا ، اس کی ایسی آبیاری کی گئی کہ یہ ایک تناوردرخت بن گیا ہے ، جس درخت کی نسل ایسی ہے کہ یہ خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور اپنے کڑوے کسیلے پھل سے امت کو نسل در نسل پریشان کررہا ہے ۔ اور ہماری نئی نسل اس غلط فہمی اور تفریق وفرقہ بندی کے ماحول میں آنکھ کھول رہی ہے اور پروان چڑھ رہی ہے
نہیں آیااور اس میں بہت سے لوگوں نے اپنا رول ادا کیا ہے ۔ اور یہ اختلاف بتدریج ترقی پذیر ہوا ہے ، یہ اختلاف جو ایک پودے کی شکل میں وجود میں آیا تھا ، اس کی ایسی آبیاری کی گئی کہ یہ ایک تناوردرخت بن گیا ہے ، جس درخت کی نسل ایسی ہے کہ یہ خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور اپنے کڑوے کسیلے پھل سے امت کو نسل در نسل پریشان کررہا ہے ۔ اور ہماری نئی نسل اس غلط فہمی اور تفریق وفرقہ بندی کے ماحول میں آنکھ کھول رہی ہے اور پروان چڑھ رہی ہے
اس اختلاف کی تاریخ کی تفصیل
کی کتابیں میرے پاس موجود ہیں ، لیکن میں اس تاریخ کو اور اس مسئلے کی آبیاری کرنے
والے لوگوں کے بارے میں نہیں لکھ رہا ہوں کہ یہ ہمارے مقصد میں شامل نہیں ہے ،
کیونکہ اس تاریخ میں کم یا زیادہ لیکن دونوں طرف کے حضرات کانام آئے گا ،
ہمیں اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے پردہ پوشی کا حکم دیا ہے ، اور اس سے رقابت بڑھنے کے علاوہ کوئی
فائدہ نہیں ہے ۔ اپنے گندے کپڑوں کو سب کے سامنے دھلنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور
اس تاریخ کا جاننا ایسا علم نہیں ہے جو قیامت کے میدان میں ہم سے پوچھا جائے گا
اوریہ علم نافع میں شامل نہیں ہے ، اس سلسلے میں میں چند اشارات اور وجوہات کی
نشاندھی کرتا ہوا آگے بڑھ جاؤں گا۔
سب سے تعجب خیز اور افسوس نا ک بات یہ ہے کہ ان
اختلافات کی ابتداء رسوم کی اصلاح اور شرک وبدعت
کو ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہوئی ، یعنی جن تحریروں یا تقریروں کی وجہ کر
اختلاف بتایا جاتا ہے اور اصلاً اصلاح کی نیت سے لکھی گئی تھیں ، اس میں سے ایک
کتاب جس کے چند جملوں پر اعتراض کی وجہ سے سب سے زیادہ اختلاف کا چرچہ بتایا جاتا
ہے اور عوام اکثر اسی کتاب کا نام لیتی ہے
شاہ اسماعیل شہید
کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ وہ ان کے شیخ سید احمد شہید ؒ کا ملفوظ ہے، جسے شاہ
اسماعیل شہید ؒ نے قلمبند کیا ہے ۔ (بحوالہ منظور نعمانی کی کتاب ، شاہ اسماعیل
شہید
وکی پیڈیا ، معلومات کا ایک بہت ہی
مستند ذریعہ یہ کسی چیز کوہے اور انٹرنیٹ پر لکھنے سے پہلے تمام شواہد اور حوالہ
کو چیک کرتا ہے اور اگر اس کو کسی مضمون کے کسی حصے کی معتبریت میں شک ہوتا ہے تو
وہCitation Needed ’’حوالہ درکارہے
‘‘ Neutrality dispute ’’غیر جانبداری مشکوک ہے ‘‘ Clean up required ’صفائی درکار ہے ‘‘ وغیرہ کا نوٹس لگاتے ہیں ۔غرض یہ تحقیق کا حق ادا کرنے
کی کوشش کرتے ہیں۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم مسلمانوں کو دی تھی کہ کوئی
بات دوسروں تک پہنچانے سے پہلے تحقیق کرلو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
حالانکہ وہ بیچارے غیر ایمان والے ہیں ، اللہ ان کو ایمان کی دولت نصیب فرمائے
)
، اس کے مصنف شاہ
اسماعیل شہید ؒ ہیں ، جن کے بارے میں وکی پیڈیا اس طرح تعارف کرتا ہے۔
شاہ اسماعیل شہید اسلام
کے ایک اسکالر تھے ، وہ شاہ عبدالغنی کے لڑکے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے
تھے اور شاہ عبدالعزیز محدث اور شاہ رفیع الدین محدث اور شاہ عبدالقادر کے بھتیجے
تھے ۔ شاہ اسماعیل شہید ، ۱۲ ؍
ربیع الاول ۱۱۹۲
ھ ؍
۲۶اپریل
۱۷۷۹
میں پیدا ہوئے
، شاہ اسماعیل کا
زمانہ شرک وبدعت کے زہریلے ماحول سے پوری طرح بھرا ہوا تھا۔
ہندوستانی مسلمان ہندؤں کے مذہبی رسموں سے متاثر ہوکر ایسی رسمیں اور عقیدہ رکھنے
لگے تھے کہ بعض معنوں میں اسلام سے پہلے کے زمانے جاہلیت میں کیے جانے والے
شرکیہ رسوم کو بھی پار کرگئے تھے ، وہ اپنی ایک کتاب تقویۃ الایمان کے لیے مشہور
ہیں جو انہوں نے کچھ صوفیوں کے بدعتی رسوم کے خلاف لکھی تھی ، حالانکہ شاہ
اسماعیل شہید خود ایک صوفی تھے اور وہ سید احمد شہید ؒ کے شاگردتھے ،جو جاہل صوفیوں
کی بدعتوں کے سخت خلاف تھے ، انہوں نے سید احمد شہید کے ساتھ پنجاب کی ظالم
حکومت کے خلاف جہاد کیا، اور آخر میں ۶ مئی ۱۸۳۱ ء کو سید احمد شہید اور سید
اسماعیل شہید اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے ۔
ہندوستانی مسلمان ہندؤں کے مذہبی رسموں سے متاثر ہوکر ایسی رسمیں اور عقیدہ رکھنے
لگے تھے کہ بعض معنوں میں اسلام سے پہلے کے زمانے جاہلیت میں کیے جانے والے
شرکیہ رسوم کو بھی پار کرگئے تھے ، وہ اپنی ایک کتاب تقویۃ الایمان کے لیے مشہور
ہیں جو انہوں نے کچھ صوفیوں کے بدعتی رسوم کے خلاف لکھی تھی ، حالانکہ شاہ
اسماعیل شہید خود ایک صوفی تھے اور وہ سید احمد شہید ؒ کے شاگردتھے ،جو جاہل صوفیوں
کی بدعتوں کے سخت خلاف تھے ، انہوں نے سید احمد شہید کے ساتھ پنجاب کی ظالم
حکومت کے خلاف جہاد کیا، اور آخر میں ۶ مئی ۱۸۳۱ ء کو سید احمد شہید اور سید
اسماعیل شہید اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے ۔
شاہ اسماعیل شہید خودا س کتاب کے بارے
میں اس طرح بیان کرتے
ہیں کہ میں نے یہ کتاب لکھی ہے ۔ اور میں یہ جانتا ہوں کہ اس میں کچھ جگہوں پر
سخت الفاظ ہیں اور کچھ دیگر جگہوں پر Extremist View متشدد رائے ہے ۔ مثال کے طورپر کچھ عمل شرکِ خفی ہیں ، میں نے انہیں شرک جلی کے
طور پر پیش کیا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ ان چیزوں سے شور برپا ہوگا، اگر میں یہاں اپنے
مقام پر ہوتا تو اس کتاب کے مواد کو بتدریج آٹھ دس سال میں شائع کرتا ، لیکن اس
وقت میرا ارادہ حج اور اس کے بعد جہاد میں جانے کا ہے ، اس لیے آٹھ دس سال میں
شائع کرنا ممکن نہیں ہے ، میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ میرے علاوہ کوئی یہ کام نہیں
کرے گا، اس لیے میں ایک ساتھ شائع کررہا ہوں حالانکہ اس کی وجہ سے غصہ اور شور
برپا ہوگا۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ غصہ وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا (بحوالہ
حکایات اولیاء ص۹۸)
جیسا کہ وکی پیڈیا نے بتایا کہ وہ شرک اور بدعت میں جڑ
پکڑا ہوا زمانہ تھا۔ اور
ان کتابوں کے مخاطب لوگ وہ تھے جن میں ہندوانہ رسوم اور مشرکانہ عادات
داخل ہوگئے تھے پس مولانا شہید ؒ نے تقویۃ الایمان میں اور صراط مستقیم میں جن
گمراہیوں پر سخت کلام کیا ہے ، اس کے مخاطب اس وقت کے وہ مسلمان تھے جو
عقائد اور اعمال میں بگڑے ہوئے تھے اس کا اندازہ آپ اس شعر سے لگائیے جو
کسی نامعلوم شخص نے کہا ہے ۔
ان کتابوں کے مخاطب لوگ وہ تھے جن میں ہندوانہ رسوم اور مشرکانہ عادات
داخل ہوگئے تھے پس مولانا شہید ؒ نے تقویۃ الایمان میں اور صراط مستقیم میں جن
گمراہیوں پر سخت کلام کیا ہے ، اس کے مخاطب اس وقت کے وہ مسلمان تھے جو
عقائد اور اعمال میں بگڑے ہوئے تھے اس کا اندازہ آپ اس شعر سے لگائیے جو
کسی نامعلوم شخص نے کہا ہے ۔
وہی خدا تھا عرش پر مستوی ہوکر
اتر پڑا ہے وہ محمد مصطفی بن کر
اس کے علاوہ اس طرح کے
الفاظ کہنے والے لوگ تھے کہ احمد اور احد میں صرف میم کا فرق ہے ، باقی دونوں ایک
ہی ہیں ،
ان حالات کی وجہ سے جیسا کہ اسماعیل
شہید نے خود کہا ہے کہ شرک وبدع
ت کے بیان اور مذمت میں ان کا لہجہ ایک عام انداز کے بہ نسبت زیادہ سخت ہے
ت کے بیان اور مذمت میں ان کا لہجہ ایک عام انداز کے بہ نسبت زیادہ سخت ہے
۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان
تحریروں میں ایسی زبان یا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو خاصے مشکل تھے ، ا س وقت
کی اردو میں اور آج کی اردو میں بہت فرق ہے ۔ ہماری ہائی اسکول میں ایک سبق تھا
اردوئے معلی کے نام سے ۔ جس میں میر امن دہلوی وغیرہ کا نام تھا ، جس میں یہ باتیں
بیان کی گئیں تھیں کہ کیسے بتدریج اردو آسان اور عام فہم بنی۔ جس حال میں اس کو
ابھی ہم دیکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ان تحریروں میں تصوف ،منطق ، فلسفہ ، اور فقہ کی
اصطلاحوں کا خوب
استعمال ہوا تھااور ہر علوم کی اپنی ایک اصطلاح ہوتی ہے اور الفاظ کا مطلب بھی
اصطلاح کے بدلنے سے بدل جاتا ہے اور اس طرح ایک لفظ کا ایک سے زیادہ مطلب نکل سکتا ہے ۔ اور فطری امر یہ ہے کہ ایک شخص کا منطق وفلسفہ دوسرے شخص کے منطق وفلسفہ سے الگ ہوگا، اور یہی اختلاف کی وجہ بن جاتا ہے ، اگر کوئی شخص کسی موضوع پر بہت لمبا اور دقیق مضمون لکھے تو دلیل اور مثال دینے میں قرآن حدیث ونصوص کے علاوہ اس شخص کا مزاج ، فہم اور استدلالی قوت کا بھی رول ہوگا۔
استعمال ہوا تھااور ہر علوم کی اپنی ایک اصطلاح ہوتی ہے اور الفاظ کا مطلب بھی
اصطلاح کے بدلنے سے بدل جاتا ہے اور اس طرح ایک لفظ کا ایک سے زیادہ مطلب نکل سکتا ہے ۔ اور فطری امر یہ ہے کہ ایک شخص کا منطق وفلسفہ دوسرے شخص کے منطق وفلسفہ سے الگ ہوگا، اور یہی اختلاف کی وجہ بن جاتا ہے ، اگر کوئی شخص کسی موضوع پر بہت لمبا اور دقیق مضمون لکھے تو دلیل اور مثال دینے میں قرآن حدیث ونصوص کے علاوہ اس شخص کا مزاج ، فہم اور استدلالی قوت کا بھی رول ہوگا۔
بعض لوگوں کے مزاج میں شدت ہوتی ہے
،اور سب لوگ شدت کو پسند نہیں کرتے
۔ صحیح بات بتانے کے لیے الفاظ کاتناسب اور تمثیل بھی صحیح ہونی چاہیے ،
۔ صحیح بات بتانے کے لیے الفاظ کاتناسب اور تمثیل بھی صحیح ہونی چاہیے ،
ویضرب
اللہ الامثال للناس
اوراللہ تعالیٰ مثالیں
لوگوں کے واسطے اس لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ خوب سمجھ لیں ۔ (سورۂ ابراہیم آیت ۲۵)
یہاں
پر ایک سوال آپ کے ذہن میں آئے گا کہ جب یہ اختلاف
۱۸۰۰ء کے قریب یا آس پاس ہو ا
تو پھر اس کا نام دیوبندی اور بریلوی کیسے پڑا، جب کہ دیوبند تو ۱۸۶۶ ء میں قائم ہوا اور
بریلی بھی اسی زمانے میں مشہور ہوا ، اصل میں یہ اختلاف ۱۸۰۰ ء میں شروع ہوا اور یہ
افراد کے بیچ تھا۔ اور اس میں چند علماء شامل تھے اور بعد میں یہ بحث گروہ بندی
اور فرقہ کی شکل میں مضبوط ہوگئی ، اور یہ مضبوطی کا عمل دیوبندی اور بریلی سے
منسلک علماء کرام کی تحریروں اور جوابی تحریروں ، دلیل اور جوابی دلیل اور مناظروں
کی وجہ سے ہوا، جس کی وجہ سے یہ گروہ بندی منظم ہوگئی اور اسی وجہ سے یہ دیوبندی
بریلوی اختلاف کے نام سے جانا جانے لگا۔ اور یہ اسی نام سے مشہور ہوگیا
۔
اب جب کہ گروہ بندی ہوگئی اور دو فریق بن گئے
تو لامحالہ کچھ دوسرے چھوٹے موٹے اختلاف
بھی جڑتے چلے گئے اور یہ
انسان کی
فطرت ہے کہ جس کے بارے میں دل صاف نہیں ہوتا ہے اس کی بہت سی ایسی
باتیں بھی جو صحیح ہوتی ہیں نامناسب معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ عمل جیسا کہ ہمارے انتقامی معاشرے کا رواج ہے دونوں طرف سے وجود میں آیا ہے اور لوگوں نے اپنی ذہانت استدلالی اور تنظیمی صلاحیتوں کو اپنے گروہ مضبوط کرنے اور دلیلوں سے آراستہ کرنے اور دوسرے گروہ کو کمزور کرنے ، ذلیل کرنے ، ان کی دلیلوں کو توڑنے اور نیچا دکھانے میں لگایا اور اس طرح بہت سی ایسی باتیں جو عام آدمی کا ذہن اس مطلب میں نہیں جائے گا، لکھنے والے کے الفاظ اور نیت دونوں بالکل درست تھی، ایک دوسرے کی کتابوں سے نکال نکال کر گمراہی وگستاخی اور کفر کا شور بڑھاتے گئے ، ہوا یہ کہ یہ عمل دونوں گروہ کی طرف سے
فطرت ہے کہ جس کے بارے میں دل صاف نہیں ہوتا ہے اس کی بہت سی ایسی
باتیں بھی جو صحیح ہوتی ہیں نامناسب معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ عمل جیسا کہ ہمارے انتقامی معاشرے کا رواج ہے دونوں طرف سے وجود میں آیا ہے اور لوگوں نے اپنی ذہانت استدلالی اور تنظیمی صلاحیتوں کو اپنے گروہ مضبوط کرنے اور دلیلوں سے آراستہ کرنے اور دوسرے گروہ کو کمزور کرنے ، ذلیل کرنے ، ان کی دلیلوں کو توڑنے اور نیچا دکھانے میں لگایا اور اس طرح بہت سی ایسی باتیں جو عام آدمی کا ذہن اس مطلب میں نہیں جائے گا، لکھنے والے کے الفاظ اور نیت دونوں بالکل درست تھی، ایک دوسرے کی کتابوں سے نکال نکال کر گمراہی وگستاخی اور کفر کا شور بڑھاتے گئے ، ہوا یہ کہ یہ عمل دونوں گروہ کی طرف سے
ہر آنے والی نئی نسل نے
اسی ماحول میں آنکھ کھولی ، اور مدرسوں نے اپنے بچوں کی اپنی گروہوں کی دلیلوں سے
پرداخت کی ،
کسی بھی گروہ کا کوئی عالم یا اسکالر
جب دوسرے کے خلاف کتاب لکھنے بیٹھا اس کا
ذہن اور یقین تو بالکل پکا تھا کہ سامنے والا گروہ یا اس کا عالم زندیق، بددین
گمراہ عقیدہ باطلہ کا، جاہل ، بدعتی ، گستاخِ رسول ہے ، اس نے اسی پس منظر میں
گروہ مخالف کی تحریروں میں کھوج کی اور اس کو گمراہ ثابت کرنا فرض منصبی سمجھا اور
اس میں اپنی قابلیت کا استعمال کیااور عوام کو ورغلا کر انہی بنیادوں پر گروہی
لڑائی کو مضبوط سے مضبوط کرتا چلا گیا، اس طرح متنازعہ تحریروں ، تقریروں اور کتابوں کی تعداد
بڑھتی چلی گئی۔ کسی عقلمند نے ایک بہت مناسب مثال دی ہے کہ ایک باغ ہے جس میں طرح طرح کے پودے ہیں ، اگر وہاں کوئی گندا جانور خنزیر پہنچ جائے تو وہ تمام پھولوں اور پودوں سے بے خبر گندگی ہی کو تلاش کرے گا اور اسے باغ میں بھی گندگی مل جائے گی۔
بڑھتی چلی گئی۔ کسی عقلمند نے ایک بہت مناسب مثال دی ہے کہ ایک باغ ہے جس میں طرح طرح کے پودے ہیں ، اگر وہاں کوئی گندا جانور خنزیر پہنچ جائے تو وہ تمام پھولوں اور پودوں سے بے خبر گندگی ہی کو تلاش کرے گا اور اسے باغ میں بھی گندگی مل جائے گی۔
دونوں گروہوں کے بڑے
اکابرین اور علماء کرام اور مدرسو ں کے ذمہ داران کے بیچ کیسے تعلقات ہیں اور
باہمی انفرادی یا اجتماعی تعلقات کا مجھے کوئی علم اور ذاتی تجربہ نہیں ہے ، لیکن
ان کے مساجد کے ائمہ حضرات اور متوسط علماء کرام اور زعمائے امت کے بیچ بہت خراب
تعلقات ہیں، اور اکثر جگہوں پر سلام وکلام تک روا نہیں ہے ، کئی لوگوں نے ہم سے
بھی کہا کہ آپ بریلویوں کو سلام کرکے دیکھیے وہ جواب نہیں دیں گے ، لیکن میرا اپنا
ذاتی تجربہ ہے کہ نناوے فیصد لوگوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ اگر آپ پہلے سے سوچ
لیں کہ وہ جواب نہیں دیں گے تو حقیقت میں ایسا ہی ہوگا۔ آدمی کے گمان کے مطابق
اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہوتا ہے ، اگر آپ یہ سوچیں کہ نہیں وہ میرا مسلمان
بھائی ہے ، اور ہمارے سلام کا جواب ضرور دیں گے تو انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا، میرا
خود اپنا تجربہ ہے ، ایک دیوبندی مسجد کے قریب ایک بریلوی مدرسہ تھا ، میں نے ایک
معزز صاحب سے عرض کیا کہ ہم دونوں عصر کے بعداس مدرسے میں ملاقات کے لیے چلتے ہیں،
انہوں نے سخت تعجب کا اظہار کیا جیسے کہ میں انہیں کسی حرام کام کی طرف بلا رہا
ہوں، اور ہمارے بار بار اصرار کرنے پر انہوں نے ہمیں ایک بیوقوف اور نادان سمجھا
اور وہ کسی بھی صورت میں ہمارے ساتھ وہاں جانے کو راضی نہ ہوئے پھر میں ایک دوسرے
ساتھی کے ساتھ وہاں چلا گیا۔عصر کے بعد طلباء کھیل رہے تھے ، ان سے سلام وکلام کیا
بات چیت کی اور دعا کی درخواست کی۔
دیوبندی بریلوی مسئلے کا حل اور اتحاد کی
کوششیں
اب ہم ان کوششوں کا بھی
جائزہ لیں جو ان اختلافات کو ختم کرنے اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتحاد
کے لیے کی گئیں ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اتحاد کی کوشش کی تاریخ بھی لڑائی کی
تاریخ کی طرح لمبی ہونی چاہیے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ مجھے کافی
چھان بین اور کئی ناشرین اور انٹرنیٹ کی تحقیق کے بعد صرف ایک قابل ذکر نام مل سکا
ہے اور وہ تھے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ۔ جنہوں نے اپنے سطح
پر بہت کوشش کی ، اس سلسلے میں لوگوں سے درخواستیں کیں اور رسالے لکھے ، اللہ ان
کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور اپنے شایانِ شان بدلہ نصیب فرمائے۔
قاری طیب صاحب ؒ نے اپنی
تحریر میں لکھا ہے کہ ہوناتو یہ چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن عملی طور پر ان کے
کسی اقدام کا مجھے علم نہیں ہے ۔
Nuh me keller ne حال کے برسوں میں مشہور
امریکی عالم دین
نے
انگریزی زبان میں اس سلسلے میں گراں قدر خدمت کی ہے اورقرآن وحدیث کی روشنی میں
اس
مسئلے کے حل کی کوشش کی ہے ۔ اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
مناظرہ کو میں اختلاف دور
کرنے کی کوشش نہیں مانتا ، بلکہ عام طور پر مناظرہ سے دوریاں بڑھتی ہیں اور رقابت
مفقود ہوتی ہے ۔
اگر اس کے علاوہ کسی کو
اتحاد کی کوشش کا علم ہوتو ہمیں بھی ای میل پر مطلع فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment