BARELVI DEOBANDI ITTEHAD UNITY action plan solution



 نیت
 اس کی نیت یہ ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے بیچ اتحاد ہوجائے ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور وہ اپنی ایمانی فکر ی استدلالی قوت کو آپس کے تفرقہ سے بچا کر دین کی سربلندی اعلاء کلمۃ اللہ کی دعوت اور انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے کام میں استعمال کریں ، جو کہ حضور پر نور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ایمان والوں کے اتحاد اور تفرق سے بچنے پر بہت زور دیا ہے ۔
 (۱)واعتصموا بحبل اللہ جمیعا
 اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔
 (۲)انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم
 مسلمان تو سب بھائی ہیں ، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحمت کی جاوے ۔
 (۳)کونوا عباداللہ اخوانا (مشکوٰۃ ، مسلم)
 آپس میں اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاو۔
 (۴) محمد رسول اللہ الخ (سورۃ الفتح )
 محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جو لوگ آپ کی صحبت پائے ہوئے ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں ، آپس میں مہربان ہیں، اے مخاطب تو ان کودیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں ، کبھی سجدہ کررہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ، ان کے آثار سجدہ کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ، (سورۂ حجرات ، معارف القرآن ، ج۸، ص۸۹)
 یہ امت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، رضوان اللہ علیہم اجمعین
  کی قربانیوں سے وجو دمیں آئی، پوری سیرت اس کی شاہد ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اعمال پیش ہوتے ہیں جب اس امت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کا علم ہوتا ہوگا ، خاص کر یہ کہ امت کے افراد اپنی صلاحیتوں کو امت کے نفع کے بجائے تفرق کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
 یہ وہ امت ہے جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں پتھر کھائے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں کو ایک وقت میں طلا ق دی گئی۔ سارے عالم کے برگزیدہ چہرے پر بد نصیبوں نے تھوکا ۔ ابوجہل کے نفسیاتی ظلم کو برداشت کیا ۔ اس پاک ہستی پر جس کے لیے اللہ تعالیٰ درود بھیجتے ہیں اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی۔احدمیں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے ، عزیز چچا کا کلیجہ چاک کیا گیا ، صحابہ کرام نے اپنے بچوں کا یتیم ہونا اور بیویوں کا بیوہ ہونا برداشت کیا ۔ حضرت خنثہؓ نے اپنے چار جوان بیٹوں کو شہید ہونے کی خود ہی ترغیب دی اور جب ماں کو چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے کہا ، اللہ کا شکر ہے جس نے اس کی شہادت سے مجھے شرف بخشااور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کی رحمت کے سایہ میں ان چاروں کے ساتھ میں بھی ہوں گی۔
 یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
 تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو
 مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
 من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
 منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
 ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
 حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
 کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
 زمانۂ حال میں مسلمانوں کے آپسی تفرق کی فہرست بہت لمبی ہے اور جتنی کتابیں اور لٹریچر اور انٹرنیٹ ویب سائیٹس اور ( Discussion Forum) ان مباحثوں کے موضوع پر ہوں گی شاید دین کے کسی دوسرے موضوع پر ملنا مشکل ہو ) اور جتنی صلاحیت اس سلسلے میں صرف کی گئی ہے شاید اس سے دوسرے بہت سارے کام ہوسکتے تھے۔
 لیکن  دیوبندی بریلوی اختلافات پر اپنی توجہ مرکوز رکھوں گا۔ جب میں نے امت کے دو بڑے گروہ دیوبندی اور بریلوی کے بیچ اتحاد کے لیے کوشش شروع کی تو ہمارے خیر خواہوں نے اسے ایک بے فائدہ کام قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے مذاق سمجھا ، اکثر دوستوں نے کہا کہ جب بڑے بڑے علماء کرام یہ کام نہیں کرسکے تو آپ ایک معمولی آدمی کیسے کرسکتے ہیں ، لیکن جس اللہ پر بھروسہ کرکے میں نے کام شروع کیا ہے وہ زبردست قدرت والا ہے ۔  چند باتیں ہیں جو اس کوشش کے شروعات کے طور پر اس کتاب کے لکھنے کی متقاضی ہوئیں۔
پہلی وجہ

 اللہ نے انسان کو نیت کے اثبات کی طاقت دی ہے کہ وہ صحیح سمت کی طرف نیت کرے اور اپنے مقدور بھر کوشش کرے تو اس کی دین کے اندر بڑی اہمیت رکھی گئی ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جسے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح بخاری کی پہلی حدیث بنایا ہے انما الاعمال بالنیات تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اس لیے ہم نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو تفرق سے بچا کر اتحاد کی طرف لانے کی کوشش کی ہے ۔ اگر ہماری اس کوشش سے چند افراد بھی امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے نام پر جمع ہوگئے اور اپنی گروہ بندی اور خاص کر تعصب والی گروہ بندی سے باز آگئے تو میں اسے ذخیرۂ آخرت مانتا ہوں اور اگر واقعی ایسا ہوا کہ اللہ نے دونوں بڑے گروہوں کو جمع کردیا تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ، اور اگر ایک آدمی بھی اس کوشش سے اپنے اختلاف ختم کرنے کو تیار نہیں ہوا تو بھی اللہ تعالیٰ نیت کے اثبات کی بناء پر ہمیں امت کے دو گروہ کو آپس میں جوڑنے کا ثواب دیں گے ۔ انشاء اللہ ۔ اس لیے اپنی آخرت کی تیاری اور توشہ آخرت کے لیے میں نے یہ کام شروع کیا ہے ۔ اللہ پاک اخلاص اور استقامت نصیب فرمائے ۔ آمین

دوسری وجہ
 یہ تو آپ سبھی کے علم میں ہوگا کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بارے میں بہت غیر سنجیدہ اور غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان میں اگر آپ چند الفاظ پر غور کریں تو حالت کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔ دیوبندی حضرات بریلوی بھائیوں کو انفرادی طورپر( عمل کو دیکھ کر)نہیں بلکہ عمومی طور پر قبر پوجو کہتے ہیں اور اسی طور پر بریلوی حضرات دیوبندی بھائیوں کو گستاخِ رسول کہتے ہیں ۔ یہ الفاظ بہت سنگین ہیں ۔قبر پوجنے کے بعد اسلام میں کیا بچا؟ اسلام تو اللہ کے علاوہ کسی کو پوجنے کسی کے لیے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہمارا کلمہ ہی یہی ہے کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
 اسی طرح’’ گستاخ رسول‘‘ کے بعد اسلام میں بچا کیا؟ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی، اس کا دین ختم ہوگیا ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو دین کے منبع اور سرچشمہ ہیں اور ان سے حد درجہ محبت کسی انسان کے اسلام کے لیے بنیادی شرط ہے ان کی گستاخی پر ایمان کی سرحد ختم ہوجاتی ہے ۔ 
 اور عوام میں ایسی بہت باتیں مشہور ہیں کہ اگر مسجد میں چلے گئے تو مسجد کو دھویا جائے گا ۔ حالانکہ مسجد تو کافر کے داخل ہونے سے بھی ناپاک نہیں ہوتی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے وفود سے مسجد میں ملاقات کیا کرتے تھے اور مسجد نہ نا پاک ہوتی تھی ، نہ اس کو دھلا جاتا تھا۔



چوتھی وجہ
 بڑے افسوس کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ اتحاد امت کے سلسلے کی جو کوششیں ہیں وہ بہت ناکافی سطح پر ہیں۔ اور اس سلسلے میں ایک مایوسی یا بے چینی کی صورت حال ہے ۔ جو کسی طرح بھی لائق تحسین نہیں ہے ۔ اس کوشش سے میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک اہم امور کی طرف توجہ ہو اور اس سلسلے میں ذہنی وعلمی سطح پر ایک شروعات ہوجائے ۔ تاکہ جن لوگوں کو اللہ نے صلاحیت دی ہے اور وہ اس کام کو بہتر طریقہ سے کرسکتے ہیں۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اللہ کی مدد کے بھروسے پر امید رکھتے ہوئے امت کے علماء وزعماء امت اس سلسلے کی کوشش کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوڑنے کی فکری وعملی طور پر شروعات ہوجاء

پانچویں وجہ
یہ ہے کہ دونوں طر ف کے سنجیدہ طبیعت لوگ اس سے پریشان ہیں اور اس کے حل کے خواہش مند ہیں ۔ پچھلے ایک سال میں ہم نے انفرادی طور پر اور انٹرنیٹ کے ذریعے بیشمار لوگوں سے اس سلسلے میں بات کی ، جس میں دینی مدارس کے علماء کرام اور پڑھنے والے طلباء اور عصری اسکول کالج میں پڑھنے والے طلباء اور اساتذہ اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ۔ اور تقریباً تمام لوگ اس تفرق کو ختم کرنے کے خواہش مند تھے ، عمومی طور پر علماء کرام اور مدرسہ کے طلباء اس سلسلے میں بولتے ہیں کہ ہم میں عقیدے کا اختلاف ہے لیکن جب ان سے اس کی گہرائی میں جا کر بات کی جاتی ہے تو تھوڑی ہی دیر میں اس نقطے پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعتا اختلاف زیادہ نہیں ہے ، لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں، اس مسئلے کا حل تو بڑے بڑے علماء کرام کو کرنا چاہیے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ بڑے علماء کرام پر ذمہ داری ڈال کر کوئی اپنی انفرادی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا اور ہمیں اپنے مقدوربھر ضرور کوشش کرنی چاہیے ، قیامت میں سب کو اپنے طورپر اپنے اچھے یا برے عمل کا حساب دینا ہیے جو شخص ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گااور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔
 کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان اختلافات یا اس جیسے دوسرے اختلافات کا بہانا بنا کر سرے سے دین کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) دین میں اتنے اختلافات ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی عملی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس کا حیلہ بناتے ہیں کہ جب علماء کرام میں ہی اختلاف ہے تو ہم کس برانڈ کو فالو کریں۔ سوال یہ ہے کہ اختلاف کہاں ہے؟

کیا اسلام میں اختلاف ہے ؟
 ہرگز نہیں۔ یہ اختلاف مسلمانوں میں ہے۔ اسلام تو مکمل ہے اور اس میں کسی شک ، کنفیوزن اور پیچیدگی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن اس دنیا سے رحلت فرمائی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک تقریر کی جس کا مضمون اس طرح ہے ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر
 حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ حیات میں بھی اور وفات کے بعد بھی کتنے پاکیزہ ہیں‘‘۔
 ابوبکرؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی عمر عطا فرمائی اور ان کو اتنا عرصہ دنیا میں باقی رکھا کہ اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کو قائم کردیا۔ اللہ کے حکم کو غالب کردیا، اللہ کا پیغام پہنچادیا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں وفات دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ایک صاف اور کھلے راستے پر چھوڑگئے ہیں، اب جوبھی ہلاک ہوگا وہ اسلام کی واضح دلیلوں اور (کفر وشرک ) سے شفاء کے لیے واضح قرآن کو دیکھ کر ہی ہلاک ہوگا۔
 جس آدمی کا رب اللہ تعالیٰ ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے جس پر موت نہیں آسکتی اورجو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور ان کو معبود کا درجہ دیا کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ اس کا معبود مرگیا ۔ اے لوگوں اللہ سے ڈرو اور اپنے دین کو مضبوط پکڑو۔
 یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت تھی بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں میں مجھے سب سے زیادہ محبت ابوبکر سے ہے ۔ پھر بھی چونکہ ایسا موقع تھا کہ لوگ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کو مدعا بناکر عجیب باتیں کررہے تھے اور کچھ لوگوں کے مرتد ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے انہوں نے صاف الفاظ کا استعمال کیا۔ کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور ان کو معبود کا درجہ دیا کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ اس کا معبود مرگیا۔ جب کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق برزخی زندگی ہے اور اس کو صدیق اکبر خوب سمجھتے تھے لیکن ایک بات واضح کرنی تھی جس کے لیے انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا۔


پانچویں وجہ
 عام طور پر ان اختلاف میں دلچسپی رکھنے والی عوام اور دونوں گروہ کے متوسط علماء کرام اور مساجد کے ائمہ اور مدرسوں کے طلباء کے بیچ جو غلط فہمی اور ایک دوسرے کے

 بارے میں شک اور بدگمانی ہے وہ اختلاف کے حقیقی سطح سے مقدار میں بہت زیادہ ہے اور کوالیٹی میں بالکل الگ اور کوانٹیٹی (مقدار)میں بہت الگ ہے اور وہ اس کو اسلام وکفر اور حق وباطل کی لڑائی مان کر اور اپنے فرض منصبی سمجھ کر اس اختلاف کو پروان چڑھاتے ہیں ، اور ان کو اختلاف کی اصل حقیقت تک رسائی نہیں ہونے دی جاتی ہے اور آپ کو ان اختلافات کوا س کتاب میں دیکھنے کے بعدحقیقت معلوم ہوگی کہ واقعتا جو بات عوام اور اوسط خواص میں مشہور ہے وہ کچھ اور ہے اور حقائق سے نوعیت اور مقدار میں بالکل الگ ہے
 ان اختلافات کی وجہ سے بہت سے تعمیری کام کرنے والے افراد اور جماعتوں کو خاص دشواری ہورہی ہے ، ان مسائل کی سنگینی کا اندازہ آپ علماء کی تحریروں سے ہی لگا سکتے ہیں ۔
 مولانا عبدالحمید صاحب (جامعہ بنوریہ) ناظم اعلیٰ کتاب نوروبشر میں لکھتے ہیں:ہر چند کے دیوبندی اور بریلوی اختلاف اس قدر سنگین نہیں جو حل طلب نہ ہوتا ، ہم اس امر سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب کچھ عرصہ سے اس فروعی اختلافی مسئلہ نے باقاعدہ تنازعہ کی صورت اختیار کرلی ہے ۔
 معاشرے کا ایک عام فرد جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 

احکامات بجالاتے ہوئے زندگی گزارنا چاہتا ہے جب اضطرابی حالت میں ہے کہ حق وناحق میں تمیز کس طرح کرے؟ ، کیونکہ جب تک یہ مسئلہ کتابوں یا علماء کے مباحثوں تک محدود تھا تو ٹھیک تھا ، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایک سادہ لوح شخص بھی براہ راست متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
 یہ ایک مشن کا آغاز ہے اور یہ کتاب پڑھ کر رکھ دینے کے لیے نہیں ہے اور تبصرہ یا تعریف کے لیے نہیں ہے بلکہ عملی اقدام کرنے کے لیے ہے اور اپنی نیت کے اثبات ، اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق جد وجہد اور دعا کے ذریعہ کوشش کرنی ہے ۔ اللہ پاک اس کے لیے عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔



  اب عمل کا وقت آگیا ہے
 جیسا کہ میں نے کتاب لکھنے کی نیت کے طور پر عرض کیا تھا کہ اس کا مقصد اہل سنت والجماعت کے دو گروہوں کو دین محمدی کے لیے جوڑنا ہے ، اور اہل سنت والجماعت کے تمام افراد کو متحد کرنا ہے ، لہٰذا یہ کتاب پڑھ کر بند کرنے کے لیے نہیں ہے اور نہ تبصرہ کرنے کے لیے ہے ، بلکہ اب عملی اقدام کا وقت ہے ، تو شمع رسالت کے پروانو! اٹھو اور اس دیوار کو توڑ دو ، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدام کی درخواست ہے ۔
 (۱) ہر آدمی اپنے عمل کا مکلف ہے اور اس سے اس کے اپنے بارے میں ہی سوال کیا جائے گا لہٰذا امت کو جوڑنے کے لیے اپنی سطح پر فوراً کوشش شروع کردیں ، تمام لوگوں کے اقدام کا انتظار نہ کریں ، بلکہ قدم بڑھائیں ، اللہ تعالیٰ اس نیک کام میں مدد کرے گا ، انشاء اللہ اور لوگ ساتھ آتے چلے جائیں گے ، یہ بھی انتظار نہ کریں کہ بڑے بڑے علماء آگے آئیں گے ، آپ اپنی سطح پر کوشش کریں ، انشاء اللہ بڑے اور چھوٹے سبھی طرح کے عالم بھی آئیں گے ، لیکن ان کے انتظار میں آپ اپنی سطح کی کوشش میں تاخیر نہ کریں ۔
 (۲) بڑے علماء کرام اور مدرسے کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ہم منصب دوسرے اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر شک وشبہات دور کریں اور عوام وخواص کو اس کے لیے آمادہ کریں ، اور اس مفاہمت کی خو تشریح اور پرچار کریں۔ اس سلسلے میں بڑے مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، ندوۃ العلماء شاہی مراد آباد ، مدرسہ نعیمیہ 
 کے مہتمم ؍ صدر مدرسین کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ، کیونکہ وہ پیشوا ہیں اور لوگ ان کی اقتداء کریں گے ۔ انشاء اللہ
 (۳) مساجد کے امام ومؤذنین ، علماء کرام ، دانشوران مدرسوں کے طلباء اور بڑے چھوٹے تمام عوام وخواص سے درخواست ہے کہ وہ اپنے برابر کے دوسرے گروہ کے پاس جائیں ، اور شک وشبہات کو دور کریں۔
 اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر عمل میں لاسکتے ہیں۔
 (۱) آپس میں گرم جوشی سے سلام کریں جیسے اپنے بھائی سے مل رہے ہوں ، مصافحہ ضرور کریں اگر کافی دن پر مل رہے ہوں تو معانقہ بھی کرسکتے ہیں۔
 (۲) اگر یہ شک ہو کہ سامنے والا ٹھیک سے نہیں ملے گا تو برائے مہربانی اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ تھوڑی سے مٹھائی ہدیہ کے طور پر لے جائیے ، ہدیہ دینے سے محبت بڑھتی ہے (حدیث) انشاء اللہ بہت کار گرہوگا۔ اس سو روپے کی مٹھائی کا اللہ تعالیٰ ہمیشہ باقی رہنے والا بدلہ دیں گے ۔
 (۳) اپنے سطح پر کمیٹی بنائیں اور اپنے اپنے حلقۂ اثر میں اتحاد کمیٹی بنانے کی درخواست کریں۔
 مساجد کے ائمہ ، موذنین اپنے شہر یا وارڈ کی سطح پر کمیٹی بنائیں ، ایک شہر کے تمام مدارس کے بیچ کمیٹی کی درخواست ہے ، اس کے علاوہ دیوبندی اور بریلوی کی ذیلی تنظیموں کے بیچ ایک کاڈی نیشن کمیٹی بنائی جائے ۔
 (۴) اللہ تعالیٰ اس کا کتنا بڑا اجر دے گا یہ آپ کو قیامت کے میدان میں پتہ چلے گا ، جب حوض کوثر پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگی تب معلوم ہوگا ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے جام کوثر پلائیں گے کہ آپ نے ان کی امت کو آپس میں جوڑدیا یا جوڑنے میں اپنی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق کوشش کی۔
 بس اب کسی اور کا انتظار نہ کیجیے اور کام شروع کردیجیے ۔
 میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
 لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا
 جزاک اللہ خیر اً
 

No comments: