(ب) دیوبندی اور بریلی پس منظر اور تبلیغی جماعت
کی صورت حال
دور حاضر کی اسلامی
جماعتوں اور دین کے لیے کام کرنے والی تحریکوں میں ایک تبلیغی جماعت بھی ہے اور
شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہندوستان میں ہو جو اس کو نہیں جانتا ہو ، بقول جید علمی
شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ ’’ یہ ایک حقیقت ہے جس کو بلا کسی توریہ
وتملق کے کہا جاتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کی وسیع ترین ، قوی ترین اور مفید ترین
دعوت تبلیغی جماعت کی دعوت ہے ، جس کا دائرہ عمل واثر نہ صرف ہندوستان ، پاکستان
اور بنگلہ دیش ہی ہے بلکہ متعدد بر اعظم اور ممالک اسلامیہ وغیر اسلامیہ ہیں۔
(مقدمہ منتخب احادیث ص۵)
حالانکہ تبلیغی جماعت
ایسے علاقوں اور ملکوں تک پہنچ گئی ہے جہاں دیوبندی اور بریلوی کا کوئی نام تک
نہیں جانتا ہے ، بقول علی میاں ؒ اس میں ایثار وقربانی کا جذبہ ، رضائے الٰہی کی
طلب اور حصول ثواب کا شوق ، اسلام ومسلمانوں کا احترام واعتراف ، تواضع وانکساری
نفس ، فرائض کی ادائیگی کا اہتمام ، ذکر کی مشغولیت غیر ضروری اور غیر مفید مشاغل
سے امکانی حد تک احتراز اور حصول مقصد ورضائے الٰہی کے لیے طویل سے طویل سفر سے
اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنا ، شامل ومعمول بہ ہے ۔ (مقدمہ منتخب احادیث)
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے
کہ مسلمانوں کا وہ گروہ جسے لوگ بریلوی کے نام سے پکارتے ہیں کا اس کام میں کچھ کم
حصہ رہا ہے اور ان کے مدارس اور علماء کرام میں اس کام سے انہماک رکھنے والے لوگ
کم ہیں اور ان کے خیال میں یہ دیوبند کی ذیلی تنظیم ہے حالانکہ عوام کے لیول پر
ایسی بات نہیں ہے ، اور بہت سے خاندانی طور پر بریلوی گھروں کے حضرات تبلیغی جماعت
کے کام کو قریب سے دیکھ کر اور سمجھ کر اس محنت میں لگے ہوئے ہیں ۔ماشاء اللہ
قرآن وحدیث سے یہ بات
بالکل واضح ہے کہ تبلیغ واصلاح دین کا ایک اہم شعبہ ہے اوراس سلسلے میں قرآن وحدیث
کے بہت واضح الفاظ اور حکم ہیں ۔
(ولتکن منکم امۃ یدعون
الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون )
ترجمہ :تم میں ایک ایسی
جماعت ہونا ضروری ہے جو کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا
کریں اور برے کاموں سے روکا کریں۔ (معارف القرآن ، ج۲ ص۱۳۹)
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس
تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ
ترجمہ :۔ تم لوگ اچھی
جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے ، تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے
ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو ، (معارف القرآن ج۲؛ص۱۴۹)
قل ھذہ سبیلی ادعو الی
اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی وسبحن اللہ وما انا من المشرکین
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ
وسلم فرمادیجئے کہ میں خدا کی طرف اس طورپر بلاتاہوں کہ میں دلیل پر قائم ہوں میں
بھی اور میرے ساتھ والے بھی اور اللہ (شرک سے ) پاک ہے ، اور میں مشرکین میں سے
نہیں ہوں ۔ (معارف القرآن ج۵؛ص۴)
ومن احسن قولا ممن دعا
الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین
ترجمہ :۔ اور اس سے بہتر کس
کی بات ہوسکتی ہے جو لوگوں کو خدا کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں
فرمانبرداروں میں سے ہوں ۔ (معارف القرآن ج۷، ص۶۴۹)
جیسا کہ وکی پیڈیا نے مولانا الیاسؒ کے پیج
پر ہے بالکل صحیح لکھا ہے۔ انہوں نے اس تحریک کا
کوئی نام نہیں رکھا، کیونکہ ان کا مانناتھا کہ دنیا میں ہر مسلمان کی دعوت کے کام
کی ذمہ داری ہے ۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ اگر میں اس تحریک کا کوئی نام رکھتا تو
تحریک ایمان رکھتا ، بر صغیر کے لوگوں نے اسے تبلیغی نام سے پکارنا شروع کیا۔
اور پھر یہ نام اتنا
مشہور ہوا کہ تمام دنیا اور کام سے جڑے لو گ بھی بعض اوقات اسے اسی نام پکارتے
ہیں۔
تبلیغ دین ،حضور پاک صلی
اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تمام اولیاء بزرگان دین صوفیہ کرام کا شیوہ رہا
ہے ، اور اس کا اہتمام رہا ہے ۔
اور اس سلسلہ میں امت میں
ہمیشہ صلحاء بزرگان دین صوفیہ کرام کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس دور میں دعوت کے کام
کرنے کی آواز لگانے والوں میں مولانا محمد الیاس صاحب بھی شامل ہیں ۔اور اس تبلیغی
جماعت کو عام طور پر انہی سے منسوب کیا جاتا ہے اور بعض لوگ غلط فہمی اور غلطی سے
بانی تبلیغ بھی کہہ دیتے ہیں حالانکہ تبلیغ کے بانی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ہیں اور مولانا الیاس نے اس کا کوئی نام نہیں رکھا۔
عام طور پر مولانا الیاس ؒ کے بارے میں
کوئی اختلافی باتیں نہیں پائی جاتیں ، جو
مولانا الیاس ؍
تبلیغی جماعت پر الزامات ہیں وہ یا تو مولانا الیاس ؒ کے اساتذہ کرام کے بارے میں
یا ان کے ہم عصر کے بارے میں ہوتا ہے ، جو دیوبندسے منسلک تھے ۔ اس لیے اگر آپ
مضمون دیکھیں گے تو عام طور پر وہ مولانا الیاس کے بار ے میں نہیں ہوتا بلکہ دوسرے
علماء کرام پر الزامات لگا کر اور ان علماء کرام کا تعلق مولانا الیاس اور تبلیغی
جماعت سے بتا کر تبلیغی جماعت کو سب وشتم کا نشانہ بناتے ہیں ، یہ ہمارا observationہے ۔
اس کتاب کو لکھنے کے
درمیان دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے بہت سارے علماء کرام سے ذاتی طور پر فون
یا ای میل کے ذریعہ سے رابطہ رہا ۔ جس میں ایک بریلوی عالم صاحب نے فرمایا کہ یہ
بات بالکل درست ہے کہ تبلیغی جماعت سارے اختلافات سے دور رہتی ہے ، اور اس کی دعوت
دین کی بنیادکی دعوت ہے ۔ جس میں کوئی اختلا ف نہیں ہے ۔
لیکن ان کا سوا ل یہ تھا کہ یہ دیو بند کے مکتبہ فکر کے علماء سے ہی جڑ کر کیوں رہتی ہے ۔ یا دیو
بند کے علماء کو ہی اپنا پیشوا بنا کر کیوں رکھتی ہے ۔
جواب : ۔ یہ بالکل حقیقی
بات ہے کہ مولانا الیاسؒ اور دوسرے علماء کرام جنہوں نے تبلیغی جماعت کے نشونما
اور اس کو موجودہ حالت تک لانے میں اہم رول ادا کیا ہے ان کا تعلق دیوبند کے مکتبہ
فکر سے ہے اوروہ روز اول سے لے کر آج تک اس کے ساتھ ہیں۔ (یہاں دیوبند سے مراد اس
مکتبہ فکر کے سارے مدارس مظاہر العلوم ، ندوۃ العلماء لکھنو وغیرہ ہیں) لیکن اس کی
وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر کے علماء اور عوام نے مولانا الیاس
ؒ ؍
تبلیغی جماعت کی بات سنی اور ان کو قریب سے دیکھا ، ان کویہ حق کی دعوت سمجھ میں
آئی اور انہوں نے اس پر لبیک کہااور اپنی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق اس میں عملی
طورپر حصہ لیا اور اس کار خیر کو آگے بڑھایا ، اور اللہ کی دی ہوئی توفیق سے آج
بھی اس نفع رساں اور عمیق کام میں لگ کر اپنی آخرت کی تیاری اور جنت کے راستہ کو
آسان کرنے کے کام میں لگے ہیں اور اس کے ذریعہ سے انسانوں کی ہدایت کی فکر کررہے
ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔اور یہ مشاہدہ ہے کہ تبلیغ
سے جڑے عوام میں عام طور پر دین کے اعمال اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر
عمل کا اہتمام رہتا ہے ۔
لیکن کچھ دوسرے نے اس
دینی دعوت کو سننے اور قریب سے دیکھنے کی زحمت ہی گوارا ہ نہ کی اور اپنے دل میں
جو تاثر تھا اس کو لیے رہے اور اسی تاثر کے مطابق اپنی رائے قائم کی اور اس رائے
کا اظہار کیا ، جس کی وجہ سے ان کے تعلق اور حلقہ اثر کے دوسرے حضرات بھی اس کام
کے قریب نہ گئے اور دوری بنائے رکھی ۔
چونکہ
یہ ایک تحریک ہے اس لیے اس کو عملی طورپر حصہ لیے بغیر سمجھنا مشکل ہے ۔چاہے وہ
دیوبندکا آدمی یا بریلی کا یا کسی اور مکتبہ فکر کا اس کام کو سمجھنے کے لیے عملی
طور پر حصہ لینا ضروری ہے ، بغیر اس کے وہ اس کے کچھ پہلووں کو سمجھ سکتے ہیں لیکن
کام کے مقصد وبنیاد کو نہیں سمجھ سکتے ۔
۔
مولانا الیاس ؒ کوئی جید عالم نہیں تھے ، اور انہوں نے کوئی کتاب مضمون وغیرہ نہیں
لکھا ہے ۔ ان کی سوانح عمری مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اور ملفوظات جمع کرنے
کا کام مولانا منظور نعمان نے کیا ہے ۔ مولانا الیاسؒ نے کسی مسئلے پر کوئی فتویٰ
لکھا ہے اور نہ دوسری قسم کی کوئی رائے یا کتاب لکھی ہے ۔ حالانکہ اپنے اخلاص
وانابت الی اللہ ، تجدیدی کام اور اس کے اصولوں سے مناسبت اور دین کی جد وجہد
وقربانی کے لیے بہت ممتاز تھے، بقول منظور نعمانی ؒ ’’ ہم اور ہمارے بعض دوسرے
صاحبِ بصیرت احباب اس بارے میں ہم خیال ویک زبان تھے کہ اس زمانے میں ایسی شخصیت
اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ
ہے ۔ جس کو دین کے زندۂ جاویدہونے اور دینی جنون وبیقراری اور اس دور کی خصوصیات
کاایک اندازہ کرنے کے لیے اس زمانے میں ظاہر کیا گیا ہے ۔ میرا جی چاہتا تھا کہ
ہمارے احباب اور معاصر اس بستی کو دیکھیں
جو قرون اولیٰ کے خزانہ عامرہ کا ایک بچا کچا موتی ہے ۔ لیکن کسی کو کسی پر اختیار
نہیں ۔
دوسری
جگہ مولانا منظور نعمان ؒ فرماتے ہیں کہ مرحوم اپنی تحریک کے بارے میں کبھی کبھی
فرماتے تھے یہ قرون اولیٰ کا ہیرا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں
ہوتا کہ مولانا خود اس چودھویں صدی میں قرون اولیٰ کے خزانۂ عامرہ کا ایک موتی تھے
۔
بعض سلف کے متعلق بہت سے
چیزیں ہم کتابوں میں ایسی پڑھتے ہیں جن کوباور کرنے میں مادیت سے مغلوب حلقوں پر
بڑا بوجھ پڑتا ہے ، لیکن مرحوم کے اندر اس قسم کی چیزیں آنکھوں سے دیکھ کر الحمد
للہ ایسا انشراح واطمینان نصیب ہوا جو شاید صدہا دلیلوں سے نصیب نہیں ہوتا۔
بقول علی میاں ؒ :۔قرآن
وحدیث کے فہم ، سیرت ، اور صحابہ کرام کے حالات وواقعات کے علم ، اصول دین سے گہری
واقفیت کے ماتحت انہوں نے کام کا ایک طرز پیش کیا ‘ ‘ (دینی دعوت، ص۳۲۷)
پروفیسر خلیق احمد نظامی
نے تاریخ مشائخ چشت میں لکھا ہے گذشتہ صدی میں کسیبزرگ نے چشتیہ سلسلہ کے اصلاحی اصولوں کو اس طرح جذب نہیں کیا جس طرح مولانا الیاس ؒ نے کیاتھا۔ (ص۲۳۴
(ث) تبلیغی جماعت کے طریقہ کار اور تعلیم اور کتابوں اور تقاریر
وغیرہ کا مضمون
یہ ایک حقیقت ہے کہ
تبلیغی جماعت اپنے مزاج اور کام کے طریقہ کا رکے اعتبار سے ان دیوبندی بریلوی
اختلاف یا کسی اور طرح کے اختلاف سے کوسو ں دور ہے ۔ اس کا نظام عمل اور اس میں
پڑھی جانے والی کتابوں کا ایک مختصر خاکہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ آپ کو
حقیقت حال کا اندازہ ہو۔
تبلیغ کے کام میں پڑھی جانے والی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
اس میں سے کسی
کتاب میں دیوبندی ، بریلوی اختلاف کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے ۔
فضائل اعمال:۔ دو جلدوں میں
ہے ، یہ ان کتابوں کا مجموعہ ہے ، اس میں حکایات صحابہ ، مسلمانوں کی موجودہ پستی
کا واحد علاج ، کے علاوہ نماز ،قرآن، ذکر تبلیغ، رمضان ، درود شریف حج ، صدقات صلہ
رحمی وغیرہ پر مشتمل قرآن کی آیات اور حدیثیں ہیں اور اولیاء اللہ اور بزرگان دین
کے واقعات ہیں۔ اہل حدیث سلفی حضرات کو ضعیف حدیث اور بزرگوں کے واقعات کی بنیاد
پر اس کتاب پر اعتراض ہے ، جب کہ علماء امت کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ فضائل
میں ضعیف احادیث استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ امام بخاری نے بھی اپنی فضائل کی کتاب
الادب المفرد میں بھی ضعیف حدیثیں شامل کی ہیں ، اور بریلوی حضرات بھی اس سے متفق
ہیں۔ اور بریلوی حضرات بھی بزرگوں کے واقعات کو نصیحت کے طور پر لکھنے سے اتفاق
کرتے ہیں ۔
منتخب احادیث:
تبلیغی جماعت چھ صفات کو اپنی زندگی میں لانے پر مشق کرتی ہے کہ اگر یہ چھ صفات
زندگی میں آجائیں تو مکمل دین پر چلنا آسا ن ہوجائے گا ، وہ یہ ہیں ۔
(۱) ایمان (۲) نماز(۳) علم وذکر(۴) اکرام مسلم(۵) اخلاص نیت (۶) دعوت الی اللہ
اس کتاب منتخب احادیث میں
ان چھ صفات کے متعلق قرآنی آیات اور حدیثیں ہیں اور اس میں ہر حدیث حوالے کے ساتھ
ہے ۔
تشریح برائے نام ہے اور
یہ ایسی کتاب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ہے ، یہ کتاب کافی مقبول ہوگئی ہے
(۳) ریاض الصالحین :۔ یہ امام نووی ؒ کا جمع
کیا ہوااحادیث کا مجموعہ ہے اور یہ بہت مقبول کتاب ہے ، عرب حضرات جماعتوں میں
تعلیم کے لیے یہ کتاب استعمال کرتے ہیں۔
(۴) حیاۃ الصحابہ
: یہ مولانا محمد یوسف ؒ کی لکھی ایک بڑی
ضخیم اور جامع کتاب ہے ، جس میں زندگی کے بہت سارے شعبوں بشمول دعوت کے متعلق حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے عمل کو جمع کردیا گیا ہے ۔ بقول علی میاں ؒ
یہ کتاب صحابہ کی زندگی کا انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ،
ان چار کتابوں کے علاوہ تبلیغی جماعت میں دیوبند کے کسی بزرگ
چاہے مولانا الیاسؒ یا
کوئی اور ، ان کی یا مولانا یوسفؒ کی کوئی کتاب یا مضمون یا
رائے یا فتویٰ یا مسلک کے بارے میں کوئی کتاب نصاب میں شامل نہیں ہے ۔
تبلیغی جماعت کا اجتماعی نظام عمل عام
طور پر اس طرح کا ہے
فجر کی نماز کے بعد دین
کی بنیادی بات کا مذاکرہ ہوتاہے ، اس کے بعد اشراق تک انفرادی ذکر وتلاوت کاوقت
ہوتا ہے ، اشراق کے بعد جماعتیں مسلمانوں سے خصوصی ملاقات کے لیے جاتی ہیں ۔پھر
واپس آکر ضروریات سے فارغ ہوکر اجتماعی تعلیم ہوتی ہے ، جس میں کتابوں کی تعلیم ، قرآن
پاک کی تجوید کی مشق اور چھ صفات کا مذاکرہ ہوتا ہے ، ظہر کے بعد پھر مذاکرہ اور
تعلیم ہوتی ہے ۔ عصر یا مغرب کے بعد اجتماعی ملاقات گشت کے عنوان پر ہوتی ہے ۔ پھر
مغرب کے بعد دین کی بات ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف نشستوں میں سنتوں کا مذاکرہ ،
کھانے کی سنتیں ، نماز ، غسل وغیرہ کے فرائض ، اور تہجد وغیرہ کے فضائل کا تذکرہ
ہوتا ہے ، خصوصی اور عمومی ملاقات میں اور عصر ومغرب کے بیان میں دین کی بنیاد پر
ہی بات کی جاتی ہے ۔ کوئی اختلافی مسائل یا کسی کی شخصی رائے وغیرہ کا کوئی مضمون
نہیں ہوتا۔
اگر آپ کسی تبلیغی جماعت کے اجتماع یا بیان میں کسی عالم یا غیر عالم کی بات سنیں تو اس میں خالص ایمان ،
اعمالِ آخرت کی زندگی ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل اور دین کی
دعوت کے کام کو اپنے جان ومال لگا کر کرنے کی ترغیب ہوتی ہے ، اس میں کسی اختلافی
بات کا شائبہ بھی نہیں ہوتا ہے ، یہ نہ کسی کی مفاہمت میں یا مخالفت میں کوئی کتاب
یا مضمون یا کوئی بات نہیں کرتے ، نہ دیوبندکے لیے نہ بریلوی کے لئے ، اگر کسی
کویہ بات معلوم کرنی ہوتو ویب سائٹ پر ان کی تقریریں دیکھ سکتے ہیں۔
تبلیغی جماعت نہ تو دیوبند کی طرف کسی کو بلارہی ہے ،اور نہ
کسی بزرگ حتی کہ مولانا الیاس ؒ کی ذات کی طرف بلارہی ہے ۔ مولانا الیاسؒ نے بہت
زور دے کر اس کو منع کیا ہے کہ دعوت کے کام کے تعارف کے سلسلے میں ان کا نام تک نہ
لیا جائے ، حتی کہ یہاں تک کہا کہ صحابہ کے ساتھ دعوت کے راستے میں اللہ کی نصرتیں
ہوئیں ، ان کو تو خوب بیان کی جائے اور مولانا الیاسؒ کے ساتھ اور ان کے ساتھیوں
کے ساتھ راستے میں جو مددیں ہوئیں ان کو بیان بھی نہ کیا جائے ۔
اس
پورے مضمون سے ناظرین کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تبلیغی جماعت کسی فرقے کی
نمائندہ جماعت نہیں ہے ، اور یہ کوئی گروہ یا پارٹی نہیں ہے ، یہ تمام مسلمانوں کو
اپنی اصلاح کے لئے اپنی ذات کو سامنے رکھ کر مجاہدے کی شکلوں میں لگ کر دعوت و
اصلاح کی ایک تحریک ہے
، کسی اہل علم نے اس نظام
عمل کو ایک مختصر جملے میں بتایا ہے وہ اس طرح ہے ’’کلمہ نماز کو لے کر ،علم و ذکر کے ساتھ اپنے حق کو معاف
کرتے ہوئے دوسرے کے حق کو ادا کرتے ہوئے اللہ کی رضا کے لئے دین کی دعوت دیتے ہوئے
گاؤں گاؤں قریہ قریہ شہر در شہر ملک در ملک پھریں گے ‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق
بات ماننے اور گروہ بندی اور عصبیت سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
تبلیغی
جماعت کے متعلق اس باب میں کچھ تفصیل سے اس لیے لکھ رہا ہوں کہ بہت سی جگہوں پر وہ
سارے مباحث والزامات جو دیوبندی بریلوی سلسلے کے ہیں ، اس میں ہر حال میں تبلیغی
جماعت کا نام ضرور آتا ہے بلکہ ایک عام اور یونیورسل اندازہ ہوتا ہے دیوبندی ؍
تبلیغی دونوں کو ایک دوسرے کے ہم معنی ذیلی تنظیم تصور کیا جاتا ہے ۔ اس سے بھی
بڑھ کر غیر اردو علاقوں جیسے کیرالہ میں وہ سارے الزامات اور بحث جو دیوبند کے لیے
لگائے جاتے ہیں وہ یہاں صرف اور صرف تبلیغ کے لیے کردیا جاتا ہے اور سارا غبار ان
پر اتار دیا جاتا ہے ، تبلیغ کے کام سے جڑے لوگ ہر جگہ مل جاتے ہیں، اور یہ بیچارے
عام طور پر الزامات کا جواب نہیں دیتے ہیںیا بحث ومباحثہ میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ
اپنے کام میں یکسوئی سے لگے رہتے ہیں اور الزامات کے جوابات دینے تک کو اپنی
یکسوئی میں خلل مانتے ہیں اور سارے الزمات کا فیصلہ قیامت کے دن ہونے پر یقین
رکھتے ہیں ۔
الف) تبلیغی جماعت کا تعارف
تقریباً
ایک صدی قبل متحدہ ہندوستان کے ایک عالم اور بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب
رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی حالت افسوس ناک حد تک
ابتری کا شکار ہے ۔ نیز ا نہوں نے دیکھا کہ ہندوستا ن کے بعض علاقوں میں مسلمان
صرف اسلام کا نام تو جانتے ہیں مگر ان کو کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ کا صحیح تلفظ تک بھی نہیں آتا۔
لہٰذا مسلمانوں کی یہ
حالت دیکھ کر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دکھ اور صدمہ ہوااور
سوچنے لگے کہ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے کس طرح کام شروع کیا جائے ؟
چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے حج کا سفراختیار کیا، وہاں جاکر مشاعر حج اور
حرمین شریفین میں مقدس مقامات پر نہایت عجز وانکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں
مانگتے رہے کہ اے اللہ، میرے لیے عام مسلمانوں میں دعوت کا راستہ کھول دے ۔ اللہ
تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس کے لیے ان کا سینہ کھول دیا گیا۔
چنانچہ آپ حج کے بعد
ہندوستان واپس تشریف لائے اور ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے پاس بستی نظام الدین
سے دعوت کا کام شروع کردیا۔
آپ کا معمول تھاکہ آپ شہر
کے بازاروں ، گاؤں اور قصبوں میں چلے جاتے اور مسلمانوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے
اور مساجد اور تعلیم کے حلقوں سے جڑنے کی ترغیب دیتے ۔ تاکہ وہ اس طرح ایمان ،
نماز اور اسلام کے بنیادی مسائل سیکھیں ، اور ان بنیادی مسائل اور اسلامی آداب کو
خود سیکھنے عملی طور پر اپنانے اور دوسروں کو سکھانے کے لیے ان سے مطالبہ کرتے تھے
کہ اپنے خرچ پر مہینے میں تین دن ، سال میں چالیس دن اور عمر بھر میں چار ماہ کے
لیے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس
بزرگ کی مخلصانہ محنت میں برکت عطا فرمائی اور ان کے ارد گردپاک سیرت اہل ایمان
افراد کی ایسی جماعت جمع ہوگئی جن کا تعلق معاشرے کے ہر طبقے سے تھا ، اہل تقویٰ ،
علماء کرام ، تاجر ، کاشتکار ، سرکاری اور غیر سرکاری ملازم ، اساتذہ طلبہ اور مزدور
وغیرہ سب ہی تھے ۔
حضرت مولانا محمد الیاس
رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے لیے کچھ قواعد وضوابط وضع فرمائے ، جن میں سے بعض
کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے ۔
(۱)اپنے خرچ سے نکلنا ، لہٰذا جو شخص بھی اللہ
کی راہ میں نکلے وہ اپنی جیب سے خرچ کرے ۔ کسی تنظیم کی طرف سے یا چندہ لے کر نہ
جائے ، اس لیے اگر کسی کو فرصت نہیں یا خرچ کی طاقت نہیں ، تو وہ اپنے محلہ کی
مسجد میں اور مقامی کام میں جڑتا رہے اور اللہ کے راستے میں نکلنے کی نیت وکوشش
کرتا رہے ۔
(۲) سیاسی امور میں دخل اندازی سے دور رہے ۔
(۳) اجتہادی ، فروعی اور فقہی مسائل کو نہ چھیڑا جائے اور ہر شخص نے
جو بھی فقہی مسلک اختیار کیا ہوا ہے اسی پر عمل کرے یا اس مسلک پر جو اس کے ملک
میں رائج ہو اور پوری توجہ اور اہتمام سے ایمان ، یقین ، اخلاص ، نماز، علم ، ذکر
، مسلمانوں کے اکرام اور ان کے حقوق کا خیال رکھے ، دعوت اور خروج فی سبیل اللہ
میں مصروف رہے۔
اس باب میں تین مضمون ہیں،
(الف) میں ایک مختصر
اور مثبت انداز میں تبلیغی جماعت کا تعارف کرونگا جو ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب
کی کتاب تبلیغی جماعت اور اس کی دعوت کے اصول وآداب سے ماخوذ ہے ۔ یہ کتاب سے ڈاؤ
ن لوڈ کرسکتے ہیں۔
www. taheed-sunnal.com
(ب) تبلیغی جماعت کے بارے میں دیوبندی ، بریلوی اختلاف کے پس منظر میں ایک
مضمون ہے
(ث) تبلیغی جماعت کے
طریقہ کار اور طریقہ تعلیم اس میں استعمال ہونے والی کتابوں اور تقاریر وبیانات کے
مضمون پر بحث کی گئی ہے ، جس سے ناظرین کو یہ اندازہ ہوگا کہ تبلیغی جماعت کی تعلیم کے اندر دیوبندکے کسی
اکابر یا مولانا الیاسؒ کی ذاتی رائے یا خیالات یا مسلک ، یا فقہ کا کوئی دخل نہیں
ہے بلکہ اس کا سارا زور دین کی بنیاد پر ہے ، جس میں امت کے اندر کوئی اختلاف نہیں
ہے ۔ اور یہ کسی مسلک یا فرقہ کی نمائندہ جماعت نہیں ہے بلکہ اسلام کی نمائندہ
جماعت ہے اور تمام مسلمانوں کی دعوت واصلاح کی ایک تحریک ہے ۔
No comments:
Post a Comment