۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان اختلافات یا اس جیسے
دوسرے اختلافات کا بہانا بنا کر سرے سے دین کے
بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) دین میں اتنے اختلافات ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی
عملی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس کا حیلہ بناتے ہیں کہ جب علماء کرام میں ہی
اختلاف ہے تو ہم کس برانڈ کو فالو کریں۔ سوال یہ ہے کہ اختلاف کہاں ہے؟
کیا اسلام میں اختلاف ہے ؟
ہرگز نہیں۔ یہ اختلاف
مسلمانوں میں ہے۔ اسلام تو مکمل ہے اور اس میں کسی شک ، کنفیوزن اور پیچیدگی کا
کوئی شائبہ بھی نہیں ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن اس دنیا سے رحلت
فرمائی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک تقریر کی جس کا مضمون اس طرح ہے ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ حیات میں بھی اور وفات کے بعد بھی کتنے پاکیزہ
ہیں‘‘۔
ابوبکرؓ نے فرمایا: اللہ
تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی عمر عطا فرمائی اور ان کو اتنا
عرصہ دنیا میں باقی رکھا کہ اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کو
قائم کردیا۔ اللہ کے حکم کو غالب کردیا، اللہ کا پیغام پہنچادیا اور اللہ کے راستے
میں جہاد کیا۔ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں وفات دی اور حضور صلی اللہ
علیہ وسلم تمہیں ایک صاف اور کھلے راستے پر چھوڑگئے ہیں، اب جوبھی ہلاک ہوگا وہ
اسلام کی واضح دلیلوں اور (کفر وشرک ) سے شفاء کے لیے واضح قرآن کو دیکھ کر ہی
ہلاک ہوگا۔
جس آدمی کا رب اللہ
تعالیٰ ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے جس پر موت نہیں آسکتی اورجو حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور ان کو معبود کا درجہ دیا کرتا تھا وہ
سمجھ لے کہ اس کا معبود مرگیا ۔ اے لوگوں اللہ سے ڈرو اور اپنے دین کو مضبوط پکڑو۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے
کہ حضرت ابوبکرؓ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت تھی بلکہ خود
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں میں مجھے سب سے زیادہ محبت ابوبکر سے
ہے ۔ پھر بھی چونکہ ایسا موقع تھا کہ لوگ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے
پردہ فرمانے کو مدعا بناکر عجیب باتیں کررہے تھے اور کچھ لوگوں کے مرتد ہونے کا
خطرہ تھا، اس لیے انہوں نے صاف الفاظ کا استعمال کیا۔ کہ جو حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور ان کو معبود کا درجہ دیا کرتا تھا وہ سمجھ لے
کہ اس کا معبود مرگیا۔ جب کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق برزخی
زندگی ہے اور اس کو صدیق اکبر خوب سمجھتے تھے لیکن ایک بات واضح کرنی تھی جس کے
لیے انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا۔
No comments:
Post a Comment